حمل ضائع ہونے سے عورت کی صحت پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ نرسوں کے ہیلتھ اسٹڈی 11 کے اعداد و شمار کے مطابق نئی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ دیگر امراض میں مبتلا خواتین کے مقابلے میں اسقاط حمل والی خواتین کا 70 سال سے پہلے مرنے کا امکان کافی زیادہ ہے۔
اگر آپ کسی بھی قابل ڈاکٹر کی راہنمائی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ابھی مرہم ڈاٹ پی کے وزٹ کریں اور 16000 سے زائد تصدیق شدہ ڈاکٹروں کی رہنمائی حاصل کریں یا اس نمبر03111222398 پر کال کریں۔
بوسٹن کے ہارورڈ میڈیکل اسکول میں میڈیسن کے ایسوسی ایٹ پروفیسر اور مصنف، جارج چاوارو، ایم ڈی کہتے ہیں، “اس بات کے بڑھتے ہوئے شواہد موجود ہیں کہ عورت کی زندگی میں مختلف تولیدی واقعات جیسے اسقاط حمل، بعد میں دل کی بیماری اور قبل از وقت موت کا خطرہ بڑھاتے ہیں۔”
تحقیق کے مطابق “اسقاط حمل جیسے واقعات خواتین اور ان کے ڈاکٹروں کے لیے ان بیماریوں کے بڑھنے کے ابتدائی وارننگ سائن ہو سکتے ہیں
کیا حمل ضائع ہونا، عورت کی مجموعی صحت کو ظاہر کرتا ہے؟
یہ تحقیق خواتین کی مجموعی صحت پر حمل ضائع ہونے کے اثرات کے بارے میں ہے۔ سیموئیل باور میٹرنل فیٹل میڈیسن کے اسپیشلسٹ، کہتے ہیں کہ خواتین کو اس ممکنہ تعلق کے بارے میں زیادہ نہیں سوچنا چاہیے۔
اگر حمل کے دوران کوئی پیچیدگی آ جائے یا مشورہ درکار ہو تو اس کے لئے ماہر گائناکولوجسٹ سے رابطے کیلئے یہاں کلک کریں۔
انکے مطابق، “امریکہ میں خواتین کی اوسط عمر 81 سال ہے۔ تاہم خواتین کو یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ چونکہ میرے کئی حمل ضائع ہوئے ہیں اس لئے میں 70 سال کی عمر سے پہلے مر جاؤں گی۔”
تقریباً 4 میں سے 1 حمل ضائع ہوتا ہے
امریکی ادارہ صحت اسٹیٹ پرلز کے مطابق، تقریبا تمام حملوں میں 26 فیصد، ضائع ہو جاتے ہیں اور صرف 10 فیصد تک طبی طور پر تسلیم شدہ ہوتے ہیں یعنی ایسے حمل جو الٹراساونڈ پر دیکھے گئے ہیں یا ضائع ہونے کے بعد حمل کے ٹشو کی شناخت ہوئی ہے۔
موجودہ مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ اسقاط حمل کی تاریخ والی خواتین میں ہائی بلڈ پریشر، قلبی امراض اور ٹائپ 2 ذیابیطس کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے، لیکن اس وجہ سے قبل از وقت موت کے خطرے سے متعلق زیادہ ثبوت موجود نہیں ہیں۔ اس موضوع پر محقیقین نے 101،681 خواتین نرسوں، جنھوں نے نرسز ہیلتھ اسٹڈی 11 میں حصہ لیا کا ڈیٹا استعمال کیا۔ اس مطالعے سے یہ معلوم ہوا کہ25.6 فیصد خواتین (26,102) کا کم از کم ایک حمل ضائع ہوا۔ 24 سال کی فالو اپ مدت کے دوران، خواتین میں 2,936 قبل از وقت اموات ہوئیں، جن میں 1,346 کینسر اور 269 دل کی بیماریوں سے ہونے والی اموات شامل ہیں۔
اس کے بعد محققین نے دوسرے اثرانداز ہونے والے عوامل پر قابو پایا جس میں باڈی ماس انڈیکس (بی ایم آئی ) نسل، شادی کی حیثیت، حمل کے دوران ذیابیطس، حمل کے دوران ہائی بلڈ پریشر، سگریٹ نوشی، کھانے کی عادات، جسمانی سرگرمی، اور والدین کی دل کے دورے یا فالج کی ہسٹری شامل تھی۔ ان عوامل کے مطالعے اور حالیہ غذائی اور زندگی گزارنے کی عادات کو مدنظر رکھ کر، محققین نے جانا کہ جن خواتین کا حمل ضائع ہوا ان میں اسقاط حمل کا تجربہ نہ کرنے والی خواتین کے مقابلے میں قبل از وقت موت کا امکان 19 فیصد زیادہ تھا۔
زچگی کی بیماری اور اموات پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے
باور کہتے ہیں کہ: “یہ تحقیق اہم موضوعات کی طرف توجہ دلاتی ہے جن کے حوالے سے ماضی میں وسائل اور آگاہی کی کمی تھی۔ امید کی جاتی ہے کہ یہ تحقیق دوران حمل بیماریوں اور اموات میں کمی اور اسباب معلوم کرنے میں مفید ہو گی۔ شکاگو میں نارتھ ویسٹرن میڈیسن میں تولیدی اینڈو کرائنولوجی اور بانجھ پن میں مہارت رکھنے والی ایک ماہر امراض نسواں جونگہیم کہتی ہیں،کہ نرسوں پر کی گئی تحقیق انتہائی معلوماتی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ” میرے خیال میں کہ اس تحقیق کے نتائج خاصے دلچسپ ہیں۔ گو کہ مطالعے نے اہم عوامل پر قابو پا لیا، مگر اسکے علاوہ بھی بہت سی چیزیں حمل ضائع ہونے کی وجہ بن سکتی ہیں۔ میرے پاس بے شمار حمل ضائع ہونے کے کیسز آتے ہیں مگر میں نہیں چاہتی کہ اس تحقیق کی بنیاد پر کوئی بھی عورت جلد مرنے کے خوف میں مبتلا ہوں۔”
بہت سے عوامل اسقاط حمل کو متاثر کر سکتے ہیں
باور کہتے ہیں کہ نرسوں پر کی جانیوالی تحقیق کے نتائج کی تشریح میں مسئلہ یہ ہے کہ ہم نہیں جانتے کہ اسقاط حمل کیوں ہوتا ہے۔ اسکی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں، مثال کے طور پر عورت کی عمر زیادہ ہونا، جین کیساتھ جینیٹک مسئلہ ہونا، یا بچہ دانی مختلف شکل کی ہو سکتی ہے یا عورت کو فائبرائڈز ہو سکتا ہے۔
بہت سی خواتین اسقاط حمل کی اطلاع نہیں دیتی ہیں
یہ مطالعہ خود رپورٹ کردہ ڈیٹا پر انحصار کرتا ہے جو ہر دو سال بعد اکٹھا کیا جاتا تھا، جونگھیم کہتی ہیں کہ ” بے شمار مریضوں کیساتھ کام کرنے کی وجہ سے میں جانتی ہوں کہ بہت سی خواتین پریگنینسی ضائع ہونے کی اطلاع نہیں دیتی”۔
مطالعہ کے نتائج کو بڑی آبادی پر لاگو نہیں کیا جا سکتا
باؤر کا کہنا ہے کہ پریگنیننسی اور موت کے بارے میں ممکنہ تعلق کے بارے میں اٹھائے گئے سوالات کے علاوہ یہ نوٹ کرنا بھی ضروری ہے کہ اس تحقیق کی شرکاء نرسیں زیادہ تر سفید فام، غیر ہسپانوی گروپ کی تھیں۔ ” لہذا آپ ان نتائج کو دوسری نسلوں پر لاگو نہیں کر سکتے،”۔
اسقاط حمل کے جذباتی مسائل بھی قابل توجہ ہیں
باؤر کا کہنا ہے کہ یہ ایک بہت وسیع مضمون ہے، لہذا اس پر مزید تحقیق
کی ضرورت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ” نقصان چاہے پریگنینسی کے شروع میں ہو یا آخر میں، خواتین کو مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کو طویل مدتی ذہنی صحت کے حوالے سے سہارا دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔”
اگر آپ یا آپکی قریبی عزیزہ اسقاط حمل کے بعد ذہنی دباؤ کا شکار ہیں تو اس لنک پر کلک کریں۔
کیا پریگنینسی ضائع ہونے کے بعد دل کی بیماری کیلئے جلد معائنہ کرانا ضروری ہے؟
محققین کے مطابق، پریگنینسی ضائع ہونے کا خواتین کی مجموعی صحت کی خرابی سے تعلق ثابت کرنے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
ماہر امراض قلب سے مشورے کیلئے ابھی اس لنک پر کلک کریں۔
ڈاکٹر چاوارو کے مطابق، “اس سلسلے میں معالجین مریضہ کی تولیدی تاریخ، پریگنینسی کی تاریخ کا جائزہ لیکر ہی فیصلہ کریگا کہ قلبی صحت معلوم کرنے کیلئے ٹیسٹ ہوں یا نہیں۔ شروع میں خوراک میں تبدیلی اور جسمانی سرگرمی میں اضافہ کی سفارش کی جا سکتی ہے”۔
مرہم ایپ ڈاؤن لوڈ کرنے کیلئے یہاں کلک کریں
source:https://www.marham.pk/healthblog/hamal-zaya-hona-k-orat-ki-sehat-pr-asrat/